محبت نہیں عشق یے
محبت نہیں عشق یے
از قلم این این ایم
قسط نمبر9
انکل میرا جو پاکستان میں گھر ہے وہ تو لاہور میں ہے اور ابھی یہاں اسلام آباد مجھے کچھ کام ہے تو میں لاہور نہیں جا سکتا میرا مطلب تھا کہ انکل آپ سمجھ رہے ہیں نا حسیب نے ان کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا میں سمجھ رہا ہو یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا اپنا گھر ہے تم دونوں یہاں جتنے دن چاہوں رہ سکتے ہوانور صاحب بہت پیار سے بولے تھے آپ کا بہت بہت شکریہ انکل ۔نکاح ہو چکا تھا اور ماہروش اپنے کمرے میں آ چکی تھی وہ بہت چیکھی چلائی مگر اب کیا ہو سکتا تھا طاہر صاحب سے وہ بہت ناراض تھی اور حدیب کا تو وہ نام بھی نہیں سننا چاہتی تھی حدیب نے اپنی پرابلم بتائی تو انور اور طاہر صاحب نے رخصتی کا پلین تین دن بعد کا بنایا ۔
0===========
نکاح کے تین دن تک ماہروش اپنے کمرے سے باہر نہیں آئی تھی سب گھر والے اسے لے کر بہت پریشان تھے آج اس کو حسیب کمال کے ساتھ رخصت کرنا تھا میں نہیں جاؤں گی ماہروش بار بار چلا رہی تھی میں ہر گز نہیں جاؤں گی نہیں ہے وہ شخص میرا شوہر ماہروش نے سارے کمرے کو تحس نحسس کر دیا نہیں ہے وہ شخص میرا شوہر نہیں ہے ماہروش یہ کہتی ہوئی نیچے بیٹھ گئی طائی جان اس کے قریب آئیں بیٹا اپنے باپ اور طایا کی عزت اب تمہارے ہاتھ میں ہے مان جاؤ اور چلی جاؤ اس کے ساتھ بیٹیاں ہی کیوں عزت کی رکھوالی کریں کچھ بیٹوں کابھی فرض بنتا ہے کے نہیں مان جاؤ طائی جان نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے طائی جان یہ کیا کر رہی ہیں آپ ایسا نا کریں ٹھیک ہے میں چلی جاؤں گی لیکن جب آپکا بیٹا آئے تو اسے اس کے نام سے نہیں قاتل پکارہ جائے میری خوشیوں کا قاتل میرے جزبات کا قاتل میں یہاں سے جا تو رہی ہوں مگر اپنی خوشیوں اپنے جذبات کو یہیں دفنا کر جا رہی ہوں ایک بات یاد رکھیئے گا آگر میں مر گئی تو اس شخص کو میرا منہ بھی نا دیکھنے دیا جائے یہ کہتے ہوئے ماہروش نے بڑی سی چادر اوڑھی تھی اور حدیب کی ہر یاد کو دماغ سے جھٹکتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی ۔ جب وہ باہر آئی تو سب انھیں سی آف کرنے کے لیئے جمع تھے گھر کے نوکر وغیرہ سب جمع تھے ماہروش کا سامان پہلے ہی رکھوایا جا چکا تھا ۔ بیٹا ملنے آتی رہنا طائی جان نے کہا کس سے ماہروش نے سوال کیا ہم سے اپنے ابو سے طائی جان نے کہا میں اپکو نہںں جانتی اور انھیں تو بلکل بھی نہیں ماہروش نے طاہر صاحب کی طرف اشارہ کیا ماہروش یہ کیا بکواس ہے طایا جان غصہ ہوئے نہیں بولنے دو اسے طاہر صاحب نے انھیں روکا ۔انکل اجازت دیں اب ہم چلتے ہیں حسیب نے جانے کی اجازت مانگی تھی جو طایا جان نے دی تھی طاہر صاحب اس حالت میں نہیں تھے کہ کچھ بھی بولتے چلو چلتے ہیں وہ دونوں نکلے ہی تھے کے سامنے پورچ میں حدیب کی گاڑی اا کے روکی سب اسے دیکھ کر حیران رہ گئے وہ چہرے پہ فاتحانہ مسکراہٹ سجائے ہوئے تھا